حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ
حضرت پیر مہر علی شاہؒ کا شمار اُن بزردگانِ دین میں ہوتا
ہےجنہوں نے انگریز کے دور میں کلمہ حق بلند کیا۔آپ حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ
کے خلفاء میں سے ہیں۔آپ نے شریعت کی اشعاعت کے لیے بہت کام کیا۔
آپ کے والد ماجد کا نام سیدنظرالدین تھا جو سید عبدل
قادرجیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے۔
آپ کا شجرہ نسب
آپ کا سلسہ نصب کچھ یوں ہے۔
مہر علی شاہ بن سیدنظرالدین بن سیدپیر غلام شاہ بن سیدپیر
روشن الدین بن سیدعبدل الرحمنٰ بن سید عنایت اللہ بن سید عنایت علی بن سید فتع
اللہ بن سیداسد اللہ بن سید فخر الدین بن سید احسان بن سیددرگاہی بن سیدجمال علی
بن سید محمد جمال بن سید ابی محمد بن میراں سید محمد کلام بن میراں شاہ قادر بن
سیدابیلحسنات بن سید تاج الدین بن سید بہاوء الدین بن سید جلال الدین بن سیدداوءد
بن سیدعلی بن سید ابی صالح نصر بن سیدعبدل رزاق مِن شیخ سید عبدل قادرمحی الدین
الجیلانی بغدادی الحسنی ابن اُمنؓ۔
بغداد سے گولڑہ امدد کیسے ہوئی؟
آپ کے اجداد میں سے ایک نامور بزرگ میراں شاہ قادر ؒ بغداد
شریف سے ہندوستان تشریف لائے اور بنگال تک تبلیغ فرما کرقصبہ ڈورا امبالا میں
تشریف فرما ہوئے۔بارہویں صدی میں اُن کی اولاد
میں سے روشن دین شاہ اور اُن کے بھائی سید رسول شاہ گولڑہ میں آکر آباد
ہوئے۔اِس علاقے میں علم و فکر کا سلسہ جاری کیا اِس طرح یہ خاندان وہا ں شہرت پا
گیا۔
حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کی والدہ پاک کا تعلق کس خاندان سے تھا؟
حضرت مہر علی شاہ ؒ کے ولد ماجد سید نظر الدینؒ کی شادی سید
جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی اولاد میں سے ایک نیک خاتون سے
ہوئی۔آپ کی ولادت باسعادت یکم رمضان
المبارک سن ۱۲۷۴ہجری میں گولڑہ ضلع
راولپنڈی میں ہوئی۔
آپ ؒ نے تعلیم کس سے اور کہاں سے حاصل کی؟
پیرمہرعلی شاہؒ نے قرآن مجید،فارسی اور عربی کی ابتدائی
تعلیم اپنے والد ماجد کے ماموں پیر فضل الدین
شاہ صاحب گیلانی کی سرپرستی میں مولوی غلام محی الدین صاحب سے گولڑہ شریف
میں حاصل کی ۔اِس کے بعد موضع بُہی کے ضلع اٹک میں شفیع صاحب سے منتق اور فلسفاتی
کتابیں پڑھیں۔پھر موضع انگا ضلع شاہ پور میں مولانا سلطان محمود صاحب کی خدمت میں
حاضر ہو کر درس سیاعت کی تکمیل کی ۔ انگا
سے چکوال آئے اور مولانا برھان الدین سے فکہ اور حدیث کی کتابیں پڑھیں۔مزید تعلیم
کے لیے آپ علی گڑھ ہندوستان تشریف لے گئے وہاں مولانا لطف اللہ علی گڑھی جو کہ
مولانا قاری عبدل الرحمٰن صاحب پانی
پتی کے شاگرد تھےکے حلقہ درس میں شامل ہو
گئے۔تقریباً اڑھائی سال وہاں منتق وفلسفہ
اور عقلیتس کی آخری درجہ کی کتابیں پڑھیں۔اِس کے بعد سہارن پور پہنچ کرمولانا
احمد علی صاحب سے حدیث شریف کی کتابیں
پڑھیں اورسند حاصل کی۔ناظرین علی گڑھ کے زمانہ میں جب پیر صاحب مولانا لطف اللہ کے
مدرسہ میں طالبِ علم تھے سر سید احمدخاں کا خیال تھا کہ عربی مدارس کی تعلیم
میعاری نہیں ہوتی۔اس لیے اُن مدارس کے بجائے مسلمانوں کا پیشہ علی گڑھ کالج کی
عربی کلاسوں پر سرف کیا جانا چاہیے۔چنانچہ سر سید نے ایک یورپین ماہر تعلیم کو
بلوا کر مولانا لطف اللہ کے مدرسہ کی
رپورٹ مانگی۔اور ماہر تعلیم نے مدرسہ کا متحان لیا ۔ حضرت پیر صاحب کہ پرچہ میں
خود اقلیدس کے کتابی حل پر اعتراض کر کےمتعلقہ شکل پر اپنا حل پیش کیا۔ممتحن صاحب
نے سر سید کو اپنی رپورٹ میں لکھ بھیجا کہ جس مدرسہ کے طلب علم حکیم اقلیدس پر
اعتراض وارد کرنے کی قابلیت و ہلیت رکھتے ہیں اُس پر تنقید نہیں کی جاسکتی۔
آپ ؒ نے کن کے ہاتھ پر بیعت کی؟ اور حقیقی مرشد کو کیسے اور کہاں سے تلاش کیا؟
آپ کے والد ماجد کے ماموں پیر فضل الدین شاہ
صاحب سلسلہ قادریہ میں مجازتھے۔آپ نے طالبِ علمی کے زمانہ میں اُن کے دستِ
اقدس پر بیعت کی اور کچھ عرصہ زکر و شغل میں مشغول رہے اس کے بعد انہوں نے آپ کو
سلسلہ قادریہ میں اجازت اور خلافت بھی عطا فرمائی۔میزاب کی اعلیٰ استدادات کے پیشِ
نظر خود ہی فرمایا کہ اگر کوئی دوسرا کامل شیخ ملے تو اُس سے بھی فیض حاصل
کریں۔آپ کے اندر فکرِ خداکی جو استداد موجود تھی وہ ایک لہمہ آپ کوچین نہیں لینے
دیتی تھی۔او ر علم کے حصول کے ساتھ ساتھ
آپ مرشد ِ کامل میں لگے رہتے تھے۔چنانچہ جس وقت انگا میں سلطان محمود کی خدمت میں حصول ِ علم کے
لیےپہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ کے مرید ہیں۔اور اکثر اوقات اُن
کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے ہیں۔آپ بھی استاد کے ہمراہ سیال شریف تشریف لے گئے۔
حضرت خواجہ سیالوی کے اندر مرشد کامل کی علامت اور صفات پا
کر آپ کے دل میں حضرت خواجہ کی محبت جاگزیں ہو گئی۔لیکن اِس وقت آپ نے بیعت نہیں
کی بلکہ ہندوستان میں تکمیل علم کرنے کے بعد آپ حضرت سیالوی کی خدمت میں حاضر
ہوئے اور شرفِ بیعت حاصل کی۔حضرت سیالوی نے بڑی توجہ سے آپ کوسلوب کی منازل طےکروائی۔اِس عرصہ میں آپ گولڑہ شریف میں مکیم
ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔اور سن ۱۲۹۵ ہجری سے سن ۱۳۰۰ ہجری تک سلسلہ کو
جاری رکھا۔اِس عرصہ میں آپ نے سینکڑوں طلبا ء کو علومِ دینیہ کے ساتھ ساتھ علم
معقول ، منتق اورفلسفہ وغیرہ کی بھی تعلیم دی ۔
حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ کو خلافت کہاں سے عطا ءہوئی؟
سن ۱۳۰۰ ہجری میں حصرت خواجہ شمس الدین سیالوی ؒ قدسرا نے
اپنے وصال سے چند روز قبل آپ کو خلخہ
خلافت عطا فرمایا۔خصوصی توجہیات سے نوازا اور حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی
تصانیف ،فتوحات مکیہ کے مطالعہ کا حکم
دیا۔
حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ کے وصال کے بعد آپ پر ایک
کیفیت طاری ہو ئی اور آپ درس و تدریس کے سلسلہ کو خیرآباد کہ کر جلذب و
تغیر کےعالم گھر سے نکل کھڑے ہوئےجیسا کہ مشاخِ قباعل اپنی ابتدائی زندگیوں میں
ریاضعت مجرہ کرتے رہے ہیں۔اسی طرح آپ بھی برصغیر پاک و ہند کے مختلف اضلاع جیسا
کہ لاہور ، ملتان،مظفر گڑھ،ڈیڑہ غازی خان،ملیر ،کوٹلہ اور ہزارہ کے مختلف مقامات
پر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کرعبادت اور ریاضعت میں مشغول رہے۔دور دور جا کر ہم اثر
اولیاءاللہ سے ملاقاتیں کیں۔اور صالحین کے
مزارات سے احتساب فیض کیا۔آخر پانچ سال کے بعد حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کےمزارِ
پاک پر حاضر ہوتھے کہ غریبی آواز آئی کہ جوکچھ معین الدین اجمہری کے پاس ہےوہی
تمہارے پاس بھی ہے۔گھر جاوءں اور اُسے کماوء۔ چنانچہ اِس کی تعمیل میں گولڑہ شریف واپس آ کر قیام فرمایا۔-علم ظاہری کی کثرت
سے وحشت پیدا ہوئی تو اُس زمانہ کے دو بڑے بزرگوں کی خدمت میں سلب علم کی درخواست
کی۔انہوں نے آپ کے باطن پر توجہ فرمانےکے بعدیہ کہ کر بے بسی کا اظہار کیاکہ آپ
کی نسبت باطنی نہایت قوی ہے اور ہماری قوت تاثیر
سے باہر ہے۔
آپ کی حرمین شریف میں پہلی حاضری اورحضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب سے ملاقات
ادب کی کتابوں کے مطابق ایک دفعہ آپ حرمین شریفین کاقصد
کیا۔حج ادا کیا اور وہاں کے علما ء اور مشایخ سے بھی استفادہ کیا۔مکہ معظمہ میں
آپ شیخ العرب و عجم حضرت حاجی امداد اللہ
مہاجر مکی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضرت حاجی صاحب نے آپ کو سلسلہ چشتیہ و صابریہ
میں خلافت عطاء فرمائی اور واپس وطن جانے کی تقلید فرمائی۔حضرت گولڑوی فرماتے
ہیں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب
کا کشف صحیح ہوتا تھا۔جب اُن کو ہماری آزاد مزاجی کا علم ہوا تو انہوں نے بڑی تاقید سے فرمایاکہ ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ
نمودار ہو گاتم ضرور اپنے وطن واپس چلے جاوں اکر بلفرض تمہیں ہندوستان میں خاموش
بھی بیٹھے رہےوہ فتنہ ترقی نہ کرے گا۔اور ملک میں سکون رہے گا۔فرماتے تھے حضرت حاجی
صاحب قدسرا کی اِس کشف سےہم نے فتنہ اے قادیانی مراد لیا نیز فرمایا اُسی زمانہ
میں ہم نے سرورِقونین محمد رسول اللہﷺکو خواب میں دیکھا اور حضورِ اقدسﷺ نے بھی مجھےاِس
فتنہ قادیانی کے احتصال کا حکم دیا۔
مکہ معظمہ سے واپس آکر دوبارہ گولڑہ شریف میں درس و تدریس کے
ساتھ سلسلہ دشدوہدایت بھی جاری کیا۔دور دور سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر احتسابِ
علومِ ظاہری اور باطنی کرنے لگے۔اسی دور میں آپ زیادہ تر شیخ اکبر محی الدین ابنِ
عربی قد سرا کی تصانیف ،فتوحاتِ مکیہ،خصوصل حکم اور مثنوی مولانا روم کا درس دیا
کرتے تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی کا جھوٹا دعویٰ اور اِس کا استحصال۔
اور جب مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹا نبوت کا دعویٰ
کیااور ملک میں ایک عظیم فتنہ برپا کر دیا۔تو آپ برصغیر کے دوسرے علماء کے دوش
بدوش مرزا قادیانی کے خلاف سینا سپر ہو گئے۔چنانچہ آپ نے زبانِ قلم سےاس فتنہ کے استحصال میں حصہ لیا۔مرزا قادیانی کے رد میں سیفِ
چشتیائی اور شمس الہدایت جیسی مدلل کتابیں تصانیف فرمائی۔جن کا بڑا ثر ہوا جس کے نتیجہ
میں بہت سے لوگوں کا ایمان محفوظ ہو گیا۔
ایک مرتبہ مرزا نے آپ کو تحریری و تقریری مناظرہ کی دعوت
دی۔آپ نے منظور کیا اور پچاس علماءکے ہمراہ لاہور پہنچ کر مرزا کو اپنی امدد کی اطلاع
دی مگر مرزا کو آپ کے مقابلے میں آنے کی ہمت نہ ہوئی اوروہ قادیان سے ہی باہر نہ
نکلا۔
قصور میں علماء کے درمیان وحدت وجود کا مسلہ
ایک دفعہ آپ کو قصور شریف میں جانے کا اتفاق ہوا اِن دنوں
وہاں کسی بزرگ کے عرس پر نقش بندی مشائخ اکھٹے تھےوہ سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور مسلہ وحدت
وجود اور وحدت شعود کی بحث چھیڑ دی۔اور آپ نے وہاں مدلل جوابات دے کر سب کو لاجواب
کر دیا۔
0 Comments